Mahi

Add To collaction

پاکیزہ محبت


ناول پاکیزہ محبت
لکھاری ماہین ملک


*************************

پاکی یار اٹھ جاؤ ورنہ بہت دیر ہو جاے گی. اور آ ج پھر بس نکل جاے گی نور پاکیزہ کو اٹھتے ہوئے ے بولی جو گدے گھوڑے بیچ کر سو ئ ہوئ تھی. نور بس دو منٹ اور سونے دو نا پاکیزہ اپنے اوپر کمبل اوڑ ھتے ھوے بو لی پاکئ
" you have five minutes to wake up otherwise i call mama"
نور نے آخری حربہ استعمال کیا جو یقیناً کام کر گیا. اور پاکی جو اور سونا چاہ رہی تھی ہڑبڑا کے اٹھ گی اور فورا سے پہلے باتھ روم بھاگی کیونکہ آج وہ آنٹی کی ڈانٹ نہیں سن سکتی تھی, اور نہ ہی انھیں ناراض کر سکتی تھی. یہی تو دو رشتے تھے اُس کے پاس جنہیں سے وہ کبھی دور نہیں ہو سکتی وہ ہمشیہ کوکشش کرتی تھی. جلدی اُٹھنے کی لیکن فجر اور قُرآن پڑھنے کے بعد بہت سکون کی نیند آتی تھی. یہی وجہ تھی کہ وہ جلدی اُٹھ نہیں پاتی تھی. پاکی فریش ہوکر باہر آئی تو نور کمرہ سے جاچکی تھی ورنہ آج پھر اُسکی سرخ ہوتی آنکھوں کا سبب پوچھتی اور اُس کا جواب سن کر ہمیشہ کی طرح غصہ ہوتی. ویسے بھی اُس ڈر کی وجہ سے وہ اکثر راتوں کو اُٹھ جاتی تھی اور فجر کے بعد ہی سوتی تھی وہ بھی اگر آنکھ لگ جاتی تو خیر رررر ...پاکی اپنی سوچو کو جھٹک کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی کیونکہ آج کے دن وہ ہرگز لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی. کیونکہ آج اُن کا یونی میں پہلا دن تھا جسکے لیےوہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر یہاں آئے تھے. اسلام علیکم کیسی ہےآپ اُس نے اپنی پھپھو جان کی دونوں گال چوم کر پوچھا تھا. میں ٹھیک ہو میرا بچہ کیسا ہے, پھپھوجان نے بھی اُسے محبت سے گلے لگایا تھا. میں بھی بلکل ٹھیک ہمیشہ کی طرح فٹ فاٹ نور یار جلدی کرو آج لیٹ نہیں ہونا ہے پاکی پُرجوش لہجہ میں پھپھو کو جواب دیے کر نور سے مخاطب ہوئی جو اپنا کھانا کھانے نہیں بلکہ ٹھوسنے مصروف تھی. نور بیٹا آرام سے کھاو ابھی تو سات بجے ہے آپ لوگوں کی یونی میں کلاس تو نو بجے ہے پھپھو نے نور کی جلدبازی پر ٹوکا. 
نہیں ماما ہمیں یونی سے پہلے کہی اور جانا ہے نور نے کھانا ختم کر کے جواب دیا 
مجھے پتہ ہے تم لوگوں نے کہاں جانا ہے صفیہ بیگم نے اطمینان سے جواب دیتے نور ارو پاکی کے حیران چہرے دیکھنے لگی..

"کہا جانا ہے ہم نے جو آپ کو بھی پتہ ہے. "نور نے پوچھا تھا 
"تم لوگوں کو کیا لگا کے مجھے پتہ نہیں چلے گا تم دونوں کہا جا رہی ہو,قبرستان جا رہی ہو نا میرے منع کرنے کے باوجود" صفیہ بیگم نے غصہ میں دونوں کو جواب دیا. .
اُاااف پھپھو آپ کتنی کیوٹ لگ رہی ہے پلیز آج جانے دے پھر نہیں جائے گے پکا پروامس پاکیزہ نے پھپھو کی گال کھچنتے ہوے وعدہ کیا اور نور کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل گئی. صفیہ بیگم پاکی کے یوں گھر سے جانے پر مسکراتی ہوی برتن اکٹھے کرنے لگی
.........................................................
"اسلام علیکم کیسے ہے؟ "سب آریان اور ادسل نے مل کر سب کو سلام کیا اور اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے 
"وعلیکم اسلام سب نے مل کر جواب دیا اور پھر کھانے کی طرف متوجہ ہو گے. ہاں بھئی برخودار آج نئے مشن پر جا رہے ہو. ابھی کل ہی تو واپس آئے ہو اور آج پھر سے ایک نئے مشن پر جانے کی تیاری کچھ دن آرام تو کر لیتے پھر چلے جاتے کام پر." رمضان صاحب نے اپنے بیٹے سے کہا جو ابھی کل ہی افغانستان سے آیا تھا. "آپ کو پتہ تو ہے ڈیڈ کے ہم فوجیوں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے اک دُشمن ختم تو دوسرے کے خلاف جہاد شروع آریان نے بھی کھانا کھاتے ہوئے جواب دیا تو رمضان صاحب بھی گردان ہلا کر رہ گئے. "لیکن آپ فکر نہ کرے اس دفعہ گھر سے دور نہیں جائے گا بلکہ یہی رہ کر اپنا مشن سرانجام دے گئے." اس دفعہ ارمان نے جواب دیا تھا. جو آریان کا کزن تھا".بلکہ میں تو ساتھ اپنی پڑھائی بھی پوری کر لو گا جو کہ پہلے سے ہی پوری ہے٫" ارمان نے آریان کو آ نکھ مار کر رمضان صاحب کو جواب دیا 
"ہائےارمان مجھے تو یقین ہی نہیں 
آرہا کہ آریان بھائی اور آپ میری یونی میں آئے گئے اب کی بار آیت بولی جو خوشی اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات لیے بیٹھی تھی. 
"ہاں لیکن تم وہاں صرف تم ارمان کو یا ارسل کو جانتی ہو مجھے نہیں آئی بات سمجھ میں یا نہیں" آریان آیت کو کل سے کوئی بیس دفعہ دوہرائی جانے والی بات دوبارہ یاد کروائی. 
"جی جی آپ ہے کون میں تو آپ کو نہیں جانتی" آیت کے یوں آنکھیں گھوما کے کہنے پر سب ہی ہنس دے. 
گُڈ !آریان نے بس اتنا کہا اور اٹھ کر اپنے روم میں چلے گئے چلو اٹھو یونی کے لیے دیر ہو رہی ہیں ارمان نے آیت سے کہا اور گاڑی کی چابی لے کر باہر آ گیا پیچھے ہی آیت بھی آگی اور گاڑی کا دروازہ کھول کر پیچھے بیٹھ گی." آگے آکر بیٹھو میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہو "ارمان نے تھوڑا غصہ سے کہا تو آیت نہ چاہتے ہوئے بھی اگے آبیٹھی آیت کے ایسا کرنے سے ارمان کے ہونٹوں پرایک جاندار مسکہراہٹ آ گئی تھی. کیونکہ وہ دونوں نکاح کے بعد آج یوں اکیلے کہی جارہے تھے .کیونکہ نکاح فوراً بعد آریان اور ارمان کو ڈیوٹی جوائن کرنے کے آڈر آئے تھے 
ملک دین صاحب کی چار اولاد تھی. تین بیٹے اور ایک بیٹی رمضان ملک, سیلم ملک, اسلم ملک, اور حورعین ملک. 
رمضان ملک کا نکاح اُن کی خالہ زاد عائشہ بیگم سے ہوا تھا جن کی دو اولاد ہے آریان ملک اور آیت ملک, اسلم ملک اور ارفع بیگم کے بھی دو ہی بچے ہے ارمان ملک اور فجر ملک جو گھر میں سب سے چھوٹی ہیں اور سب کی لاڈلی بھی ہے. اور حورعین ملک کی شادی ان کے چچازاد سے ہوئی .ان کے تین بچے ہے فائزہ ملک, ارسلان ملک , فائق ملک سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہے لیکن سلیم ملک کے لیے سب ہی اداس رہتے ہے سب اپنے بھائی کو بہت یاد کرتے ہے جو صرف ایک رشتے کے لیے گھر چھوڑ کر چلا گیا. رمضان صاحب نے انہیں کہا کہا نہیں ڈھونڈا لیکن پتہ نہیں وہ کہاں چلے گیے. بیٹے کے غم میں ماں بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی. 
**************************
ماضی
بھائی آج میں آپ سے کچھ مانگو تو آپ دے گئے. بھائی پلیز ایک دفعہ میری بات مان لو پلیز اچھا آریان ابھی سکول گیا ہے آ ئے گا تو میں اُسے لے کر تمہاری طرف آوں گا پھر جیسا تم کہو گئے ویسا ہی ہو گا لیکن اگر بابا نہ مانے تو نہیں بھائی بابا مان جائے گئے اگر نہ مانے تو آپ کی اور آپ کے بیٹے کی امانت میرے پاس میرے گھر میں محفوظ رہے گی انشاءاللّہ بابا مان جائے گے. بابا مجھ سے بہت پیار کرتے ہے وہ مان جا ئے گے .

سر سررررررررر !!!! ہاں ہاں کچھ کہاں تم نے رفیق ؟ رفیق نے رمضان صاحب کا دھیان نہ پا کر اُن کے کندھے پر ہا تھ رکھ کے حال میں واپس لاے تھے سر سب ٹھیک تو ہے نہ آپ کی طعبیت تو ٹھیک ہے نہ ؟؟رفیق نے پہلی دفعہ اپنے سر کی آنکھوں میں آنسو دیکھا تو پریشانی کے علم میں پوچھ لیا. ہاں نہیں نہیں میری طعبیت ٹھیک نہیں ہے میں گھر جا رہا ہو تم باقی کام اسلم کو دیکھا دینا. رمضان صاحب نے ماضی کی تلخ یادوں کو جھٹک کر اپنے آنسو صاف کر تے ہو ئے بولے اور آفس سے گھر کی طرف نکل گئے .ابھی گاڑی آدھے راستے میں تھی کہ گاڑی روک گئ رات بھی کافی ہو گئ تھی دوسرا اُن کا درد جو بائیں بازو میں بھرتا جارہا تھا .انھوں نے گاڑی وہی سڑک کنارے لگا لی اور خود گاڑی سے باہر سڑک چلنے لگے ابھی کچھ ہی دیر ہوئ تھی ک درد بڑھنے لگا اور وہ وہی زمین بوس ہو گے. دو آنکھوں نے جب یہ منظر دیکھا تو بھاگتی ہوئی وہاں تک پونچہی اس نے نبض چیک کی تو چل رہی تھی. وہ مدد کےلیے چلانے لگی لیکن یہ لوگ کہاں کسی کی مدد کرتے ہے اُلٹا موبائل نکال کر پکس نکالنے لگے. پاکی 
"Is he Alive "
Yes he is alive i think 
"انھیں "
"م مم مم مم میری گ گ گگ گاڑی ہہے ہے وہاں" رمضان صاحب نے یہ چند الفاظ لڑکھڑٹٹی ہو زبان سے کہا اور آنکھیں بند کر دی پاکیزہ اور نور نے ایک دو لوگوں کی مدد سے انھیں گاڑی میں بیٹھا نور تمہیں ڈڑائیونگ آتی ہے تم گاڑی چلاو میں ان کے گھر کال کرتی ہو جلدی پاکیزہ یہ کہے کر رمضان صاحب کے گھر کال کرنے لگی ایک بیل دوسری بیل اور بلآخر تیسری بیل پر کال اُٹھا لی گی یار ڈیڈ کہا رہ گئے آپ میں کب سے ویٹ کر رہےہیں سب آپکا کال وہ آپ کے ڈیڈ کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے ہم انھیں ہسپتال لے کر جا رہے ہیں. جلدی پہنچے میں ہسپتال پہنچ کر آپ کو ہسپتال کا نام بتاتی ہو.پاکیزہ نے اپنی بات کہی اور کال کاٹ دی اور رونے لگی پاکی تم تو چپ کرو ہم لے کر جا رہے ہیں انشاءاللّہ سب ٹھیک ہو گا نور نے جھٹکے سے گاڑی روک دی اور اندر سے سٹریچر لے کر دو آدمی نور کے ساتھ آے اور رمضان صاحب کو ایمرجنسی لے جائیگا اتنی دیر میں آریان اور اُن کی فیملی وہاں پہنچ گئ. نور نے انھیں گاڑی کی چابیاں اور باقی سامان واپس کیا اور مریض کی طعبیت کی خبر کا کہہ کر اپنا نمبر آیت کو دے کر باہر پاکیزہ کے پاس آگی جس کا رو رو کر بُرا حال تھا 
"پاکی یار بس کر دعا کر سب ٹھیک ہوجائے گا. کچھ نہیں ہوتا اُنھیں ."نور نے پاکیزہ کو تسلی دی. "نور نور مجھے لگ رہا تھا کہ بابا میرے بابا ہے وہ اگر اُس دن بابا کی بھی کوئی ہیلپ کر دیتا تو آج وہ یہاں ہمارے پاس ہوتے" پاکیزہ رو رو نور کو اپنا دُکھ سُنا رہی تھی. "یار پاکی جو ہواوہ اللّہ کی مرضی تھی. کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا تم صبر کروں میری جان دیکھو رات ہو رہی ہے. ماما انتظار کر رہی ہو گی. چلو اُٹھو شاباش گھر چلیں "نور کے اس طرح کہنے پر پاکیزہ نے اپنے آنسوں صاف کیے اور اُٹھ کھڑی ہوئی. اور رکشہ کروا کے گھر کے لیے نکل گئے.
************************************************
جاری ہیں 

   15
6 Comments

Amir

16-Jan-2022 07:35 PM

Good

Reply

Farhad ansari

05-Jan-2022 06:33 PM

اچھا ہے

Reply

रतन कुमार

04-Jan-2022 10:10 PM

Nice

Reply